دو لائن اردو شاعری کا بہترین اور عمدہ مجموعہ

اردو کے بہترین، عمدہ، خوبصورت، انقلاب، درد، پیار اور محبت سے بھرے ہوئے اشعار آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ دو لائنوں پر مشتمل یہ اشعار مشہور شعراء کی شعر و شاعری سے منتخب کیے گئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ دو سطروں پر مشتمل 200 سے زائد اشعار کا یہ مجموعہ آپ کے شعری ذوق کی آبیاری میں مددگار ثابت ہوگا۔

ویسے بھی اکثر لوگوں کو ایک لائن شاعری کی بجائے دو لائن شاعری زیادہ پسند ہوتی ہے اور کچھ لوگ اردو شعر و شاعری کتاب میں پڑھنے کی بجائے موبائل فون پر پڑھنا زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ اردو ہماری قومی زبان ہے۔

اب تو ان کی یاد بھی آتی نہیں

کتنی تنہا ہو گئیں تنہائیاں

 

یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا

ایک ہی شخص تھا جہان میں کیا

 

اس طرح زندگی نے دیا ہے ہمارا ساتھ

جیسے کوئی نبھا رہا ہو رقیب سے

 

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

 

ان لمحوں کی یادیں سنبھال کے رکھنا

ہم یاد تو آئیں گے لیکن لوٹ کے نہیں

 

ایک دن دیکھنے کو آ جاتے

یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

 

ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے

میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے

 

نازکی اس کے لب کی کیا کہیئے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

 

بارش ہوئی تو گھر کے دریچے سے لگ کے ہم

چپ چاپ سوگوار تمہیں سوچتے رہے

 

دامن پہ کوئی چھینٹ، نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

 

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

 

یوں لگے دوست ترا مجھ سے خفا ہو جانا

جس طرح پھول سے خوشبو کا جدا ہو جانا

 

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو

تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

 

کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم تم کو مگر نہیں آتی

 

بچھڑنے والے تجھے دیکھ دیکھ سوچتا ہوں

تو پھر ملے گا تو کتنا بدل چکا ہوگا

 

خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

 

یہ اہل وفا کس آگ میں جلتے رہتے ہیں

کیوں بجھ کر راکھ نہیں ہوتے

 

چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

 

تیرے بخشے ہوئے اِک غم کا کرشمہ ہے کہ اب

کوئی بھی غم ہو مرے معیار سے کم ہوتا ہے

 

پھول کی پتیّ سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مردِ ناداں پر کلامِ نرم و نازک بے اثر

 

تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

 

مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

 

کہاں تک ساتھ چل سکتے تھے ہم کہانی میں

ادھر میری جنوں خیزی ادھر بیزاریاں اس کی

 

آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے

میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا

 

کاش میں لوٹ جاوّں بچپن کی وادی میں

نہ کوئی ضرورت تھے نہ کوئی ضروری تھا

 

مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے

مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے

 

تقدیر کسی کو بھی برے دن نہ دکھائے

ہوتے ہیں برے وقت میں اپنے بھی پرائے

 

داور حشر میرا نامہء اعمال نہ دیکھ

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

 

تھمتے تھمتے تھمیں گے آنسو

رونا ہے کچھ ہنسی نہیں ہے

 

اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی

یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

 

روز اسکو سوچنا یاد کرنا اور خیال میں لانا

دیکھو میں کیسے اپناعشق حلال کرتا ہوں

 

ہر تمنا دل سے رخصت ہوگئی

اب تو آجا اب تو خلوت ہوگئی

 

وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا

پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

 

مجھے تنہائی کی عادت ہے میری بات چھوڑیں

یہ لیجے آپ کا گھر آ گیا ہے ہاتھ چھوڑیں

 

چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا

چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے

 

آج کی رات بھی ممکن ہے نہ سو سکوں محسن

یاد پِھر آئی ہے نیندوں کو اڑانے والی

 

دیکھ کر ہر در و دیوار کو حیراں ہونا

وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا

 

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو

اک تماشا ہوا گلہ نہ ہوا

 

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن

بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا

 

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ

دیکھا جو مجھ کو چھوڑ دیئے مسکرا کے ہاتھ

 

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

 

مدتوں بعد وہ آئے ہیں گلستاں میں نصیر

مدتوں بعد گلستاں میں بہار آئی ہے

 

آ عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

 

اقبال بڑا اپدیشک ہے، من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

 

توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جایئے

بندہ پرور جایئے، اچھا خفا ہو جایئے

 

حالتِ حال کے سبب، حالتِ حال ہی گئی

شوق میں کچھ نہیں گیا، شوق کی زندگی گئی

 

آدھی زندگی گزار دی ہے ہم نے پڑھتے پڑھتے

اور سیکھا کیا؟ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا

 

تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں

مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا

 

اس کو جانے دے اگر جاتا ہے

زہر کم ہو تو اتر جاتا ہے

 

دیکھ آؤ مریض فرقت کو

رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے

 

وابستہ ہو گئیں تھی کچھ امیدیں آپ سے

امیدوں کا چراغ بھجانے کا شکریہ

 

خلاف شرع شیخ تھوکتا بھی نہیں

مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

 

کس لیے دیکھتی ہو آئینہ

تم تو خود سے بھی خوبصورت ہو

 

دیکھا کیے وہ مست نگاہوں سے بار بار

جب تک شراب آئے کئی دور ہوگئے

 

جھنجھلائے ہیں لجائے ہیں پھر مسکرائے ہیں

کس اہتمام سے انہیں ہم یاد آئے ہیں

 

ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو

راست گوئی میں ہے رسوائی بہت

 

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لا جواب کر دے گا

 

سب لوگ جدھر وہ ہیں، ادھر دیکھ رہے ہیں

ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

 

مہک گلاب کی آئے گی تم کو ہاتھوں سے

کسی کے راستے سے کانٹے اگر ہٹا ڈالو

 

گرہ سے کچھ نہیں جاتا، پی بھی لے زاہد

ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں

 

کچھ نہیں باقی اب بجز خوشبو

کیا جوانی تھی ڈھل گئی شاید

 

فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھ کچھ

بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لیے

 

آواز دے کے دیکھ لو شاید وہ مل ہی جائے

ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے

 

سوچتا ہوں کہ اس کی یاد آخر

اب کسے رات بھر جگاتی ہے

 

ہر چند سیر کی ہے بہت تم نے شیفتہ

پر مے کدے میں بھی کبھی تشریف لایئے

 

وہ ترے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں

دل بے خبر مری بات سن اسے بھول جا، اسے بھول جا

 

وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی

میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے

 

لے چلا ہے مرے پہلو سے بصد شوق کوئی

اب تو ممکن نہیں لوٹ کے آنا دل کا

 

لگا رہا ہوں مضامین نو کے انبار

خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

 

رات بھی نیند بھی کہانی بھی

ہائے کیا چیز ہے جوانی بھی

 

شب ہجر میں کیا ہجوم بلا ہے

زباں تھک گئی مرحبا کہتے کہتے

 

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے

لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

 

الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا

 

ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انسان

بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہوجاتی ہیں نم

 

چاہی تھی دل نے تجھ سے وفا کم بہت ہی کم

شاید اسی لیے ہے گلا کم بہت ہی کم

 

آذاں دی کعبے میں، ناقوس دیر میں پھونکا

کہاں کہاں ترا عاشق تجھے پکار آیا

 

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو

اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو

 

کوچہء عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے

خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے

 

فیصل مکالمہ تھا ہواؤں کا پھول سے

وہ شور تھا کہ مجھ سے سنا تک نہیں گیا

 

دم و در اپنے پاس کہاں

چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں

 

روز وہ خواب میں آتے ہیں گلے ملنے کو

میں جو سوتا ہوں تو جاگ اٹھتی ہے قسمت میری

 

گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں

کعبے سے ان بتوں کو نسبت ہے دور کی

 

اب خراشیں تو دل میں آئیں گی

تم نے ہر بات کھردری کی ہے

 

جانتا ہوں ثواب طاعتِ و زہد

پر طبیعت ادھر نہیں آتی

 

روح کو درد ملا درد کو آنکھیں نہ ملیں

تجھ کو محسوس کیا ہے تجھے دیکھا تو نہیں

 

غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے

ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے

 

خزینہ ہُوں، چھُپایا مجھ کو مُشتِ خاکِ صحرا نے

کسی کو کیا خبر ہے میں کہاں ہوں کس کی دولت ہوں

 

بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

 

کھینچ اے یادِ یار دل کی طناب

یوں زمانوں کے آر پار نہ کھینچ

 

اسی لیے تو قتل عاشقاں سے منع کرتے ہیں

اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر

 

آندھیوں کو کچھ پتا نہیں

ہم بھی گردِ راہ ہو گئے

 

ہم اردو دان بولیں تو زباں سے پھول جھڑتے ہیں

پرندے بھی ہمارے گنگنا کر بات کرتے ہیں

 

سفر میں دھوپ تو ہوگی جو چل سکو تو چلو

سبھی ہیں بھیڑ میں تم بھی نکل سکو تو چلو

 

فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں

اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا، کیا کرے

 

کوئی تو خبر لے میرے دشمن جان کی

کئی روز سے مرے صحن میں پتھر نہیں آتے

 

یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

 

آپ سے مل کے ھم کچھ بدل سے گئے

شعر پڑھنے لگے گنگنانے لگے

 

یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں وہ جام اسی کا ہے

 

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت

بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی

 

حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

 

بے وجہ کہاں ٹوٹتے ہیں دھاگے کبھی

رشتے مضبوط ہوں اختتام نہیں ہوتا

 

اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا

سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

 

میں نے حسرت سے نظر بھر کے اسے دیکھ لیا

جب سمجھ میں نہ محبت کے معنی آئے

 

اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

 

فضا ملول تھی میں نے فضا سے کچھ نہ کہا

ہوا میں دھول تھی میں نے ہوا سے کچھ نہ کہا

 

آہ کو چاہیئے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

 

تمہیں بھی نیند سی آنے لگی ہے تھک گئے ہم بھی

چلو ہم آج یہ قصہ ادھورا چھوڑ دیتے ہیں

 

ابھی نہ آئے گی نیند تم کو

ابھی نہ ہم کو سکوں ملے گا

 

اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا

راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

 

کیوں پرکھتے ہو سوالوں سے جوابوں کو عدیمؔ

ہونٹ اچھے ہوں تو سمجھو کہ سوال اچھا ہے

 

دائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہوگا

 

ہر دھڑکتے پتھر کو لوگ دل سمجھتے ہیں

عمریں بیت جاتی ہیں دل کو دل بنانے میں

 

نیرنگیِ سیاستِ دوراں تو دیکھیئے

منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

 

دل بھی گستاخ ہو چلا تھا بہت

شکر ہے آپ بے وفا نکلے

 

شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں

عیب بھی کرنے کو ہنر چاہیئے

 

میرے مداح کو خبر دینا

مجھ کو تنقید زندہ رکھتی ہے

 

سزا دینی ہَم کو بھی آتی ہے او بے خبر

پر تو تکلیف سے گزرے یہ ہم کو گوارا نہیں

 

تقدیر کے قاضی کا یہ فتویٰ ہے ازل سے

ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

 

قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

 

ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی

مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

 

لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

 

افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر

ہر فرد ہے ملّت کے مقدر کا ستارا

 

اے طائرِ لاہُوتی! اُس رزق سے موت اچھّی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

 

جِس عہد میں لُٹ جائے فقیروں کی کمائی

اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

 

آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں

 

نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرمجوشی کی

کہ آخر مسلموں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی

 

محشر کا خیر کچھ بھی نتیجہ ہو اے عدم

کچھ گفتگو تو کھل کے کریں گے خدا کے ساتھ

 

عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے

ہمارے قتل کو کہتے ہیں، خودکشی کی ہے

 

بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

 

تبصرے غیر کے کردار پہ کرنے والے

کیا تیری خود سے ملاقات نہیں ہوتی

 

عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن

دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں

 

جوش جنوں میں عالم وارفتگی نہ پوچھ

صحرا سے ہم گزر گئے صحرا لیے ہوئے

 

بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو

جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے

 

پتوں کی طرح مجھے بکھیرتا تھا زمانہ

اک شخص نے یکجا کیا اور آگ لگا دی

 

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

 

صبح کے تخت نشیں، شام کو مجرم ٹھہرے

ہم نے پل بھر میں نصیبوں کو بدلتے دیکھا

 

یاد آیا تھا بچھڑنا تیرا

پھر نہیں یاد کہ کیا یاد آیا

 

یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن

لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

 

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے

جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

 

ملتی ہی نہیں اُس کو ملاقات کی راہیں

اور مجھ کو نہ ملنے کا بہانہ نہیں ملتا

 

کانٹے تو خیر کانٹے ہیں ان سے گلہ ہے کیا

پھولوں کی واردات سے گھبرا کے پی گیا

 

ایک لمحے کی مسافت بھی بڑی ہوتی ہے

ہم کو تو عمر لگی یار تک آتے آتے

 

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہوگا

سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

 

شام آئی تو کوئی خوش بَدَنی یاد آئی

مجھے اِک شخص کی وعدہ شکنی یاد آئی

 

دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن

رات کٹتی نظر نہیں آتی

 

اکیلے ہم ہی شامل نہیں اس جرم میں

نظریں جب بھی ملیں تھیں مسکرائے تم بھی تھے

 

تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب

اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا

 

میں تو اک جہدِ مسلسل ہوں، محبت ہوں سلیمؔ

زندہ لوگوں میں ہمیشہ مِرا نام آئے گا

 

میرے سنگ مزار پر فرہاد

رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد

 

یا وہ تھے خفا ہم سے یا ہم ہیں خفا ان سے

کل ان کا زمانہ تھا آج اپنا زمانا ہے

 

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

 

مجھ سے اب لوگ کم ہی ملتے ہیں

یوں بھی ہٹ سا گیا ہوں منظر سے

 

ہشیار یار جانی، یہ دشت ہے ٹھگوں کا

یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا

 

قرب اچھا ہے مگر اتنی بھی شدت سے نہ مل

یہ نہ ہو تجھ کو مرے روگ پرانے لگ جائیں

 

اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر

کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں

 

دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں

 

دیکھا جو کھا کے تیر کمیں گاہ کی طرف

اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

 

کہوں کس سے قصہ درد و غم

کوئی ہم نشیں ہے نہ یار ہے

 

اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا

سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا

 

مے پئیں کیا کہ کچھ فضا ہی نہیں

ساقیا باغ میں گھٹا ہی نہیں

 

تجھ سے کتنا ہے ہمیں پیار کچھ اندازہ کر

ہم ترے چاہنے والوں کے روادار بنے

 

اُن کے آتے ہی میں نے دل کا قصہ چھیڑ دیا

الفت کے آداب مجھے آتے آتے آئیں گے

 

تجھے بھول جانا تو ممکن نہیں ہے

مگر بھول جانے کو جی چاہتا ہے

 

کہہ تو دیا، الفت میں ہم جان کے دھوکہ کھائیں گے

حضرت ناصح! خیر تو ہے، آپ مجھے سمجھائیں گے؟

 

صداقت ہو تو دل سینوں سے کھنچنے لگتے ہیں واعظ

حقیقت خود کو منوا لیتی ہے مانی نہیں جاتی

 

اگرچہ ہم جا رہے ہیں محفل سے نالہء دل فگار بن کر

مگر یقیں ہے کہ لوٹ آئیں گے نغمہء نو بہار بن کر

 

فضا کو لگ گئی شاید تیرے آنے کی خبر

ہمارے شہر میں اترا ہے کمال کا موسم

 

صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور

نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی

 

میں کیسے چاہنے والوں کے دل کو ٹھیس پہنچاؤں

کہ مجھ سے تو حریفوں کی دل آزاری بھی مشکل ہے

 

ایک لمحے کا سفر ہے دنیا

اور پھر وقت ٹھہر جاتا ہے

 

اہل دل اور بھی ہیں اہل وفا اور بھی ہیں

ایک ہم ہی نہیں دنیا سے خفا اور بھی ہیں

 

سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے

ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

 

نہیں آتی تو یاد ان کی مہینوں تک نہیں آتی

مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں

 

مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے

وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے

 

کر رہا تھا غم جہاں کا حساب

آج تم یاد بے حساب آئے

 

بس یہی قیمتی شے تھی سو ضروری سمجھا

جلتے گھر سے تیری تصویر اٹھا کر لے آئے

 

کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے

تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

 

جب اگلے سال یہی وقت آ رہا ہوگا

یہ کون جانتا ہے کون کس جگہ ہوگا

مزید برآں آپ اردو زبان کے دلچسپ موضوعات کے بارے میں بھی جان سکتے ہیں۔

دوستوں کے ساتھ شیئر کریں:

مزید پڑھیں

سب سے زیادہ پڑھی جانے والی

فائیو جی موبائل فون کی قیمتیں 2024 پاکستان میں 5 جی کا ریٹ

پاکستان میں ابھی تک فائیو جی (5G) انٹرنیٹ کی...

پٹرول اور ڈیزل کی قیمت 2024 آج پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں

پاکستان میں جب بھی مہینے کی پندرہ تاریخ یا...

صحیح رئیل اسٹیٹ بروکر کا انتخاب کیسے کریں؟ مکمل معلومات

صحیح رئیل اسٹیٹ بروکر یا ایجنٹ کا انتخاب کرنے...

رئیل اسٹیٹ کیا ہے اور اس کی کتنی اقسام ہیں؟ مکمل معلومات

رئیل اسٹیٹ کو کچھ لوگ اصلی جائیداد سمجھتے ہیں...

ووٹ چیک کرنے کا طریقہ 2024 | ووٹ لسٹ کی معلومات

پاکستان میں الیکشن کی تاریخ 8 فروری 2024 قریب...

احساس پروگرام 8171 پیسے چیک کرنے کا مکمل طریقہ 2024

حکومت پاکستان نے 2019 میں احساس پروگرام کا آغاز...

کمرشل رئیل اسٹیٹ میں کامیاب سرمایہ کاری کے لیے اہم تجاویز

کمرشل رئیل اسٹیٹ کی سرمایہ کاری میں کامیابی کے...

کمرشل رئیل اسٹیٹ کی خریداری سے پہلے اہم عوامل پر غور کریں

کمرشل رئیل اسٹیٹ کی خریداری کرنے سے پہلے ذہن...

موبائل فون اور اسمارٹ فون میں کیا فرق ہے؟

اصطلاحات میں موبائل فون اور اسمارٹ فون اکثر ایک...

موبائل فون کا مثبت استعمال اور اہمیت

موبائل فون کا مثبت استعمال ہمارے معاشرے میں انتہائی...